اک غزل – سورج کے تقابل میں رنگا رنگ جلوں ہوں

سورج کے تقابل میں رنگا رنگ جلوں ہوں

تلوؤں میں اندھیرے کو لئے مست چلوں ہوں

یوں کر کے رگِ جاں کو جدا خود سے بصد ناز

اپنا ہی لہو اپنی ہی صورت پہ ملوں ہوں

تجسیم کروں ہوں جو میں تجھ آنچ پہ اپنی

توڑ اپنے بدن کو ترے سانچوں میں ڈھلوں ہوں

قائم ہوں درِ یار سے دو گام سوا میں

دہلیز کروں پار نہ کچھ لے کے ٹلوں ہوں

میں خون نچوڑوں ہوں حقیقت میں جب اپنا

تب تیرے تصور میں بہت پھولوں پھلوں ہوں

جز میرے بھلا کون اڑاوے مرے پرزے

میں آپ مرے جسم کے ٹکروں پہ پلوں ہوں

ایسا میں اکیلا ہوں ترے شہرِ سخن کا

ہر آنکھ میں کھٹکوں ہوں جو ہر دل کو کھلوں ہوں

Leave a Comment