نظم _ جب آؤ گی تو لے جانا

جب آؤ گی تو لے جانا

یہ سب کچھ جو بھول گئی تھی تم یا جان بوجھ کے چھوڑا تھا تم نے

اپنی جاں سے بھی زیادہ سمبھال رکھا ہے میں نے

پر وہ سوکھے ھوے گلابوں کا گل دستہ

تمہاری لپسٹک کے نشان والا وہ پیپر کپ

وہ ٹشو جس پر I love you لکھ کر دیا تھا تم نے

تمہاری کار پارکنگ کی پرچیاں وہ ٹوٹے ھوے کلچر کے دو حصے

تمہارے مور پنکھ والے جھمکے اور میں

وہ گرین والی چیک شرٹ دھوبی نے جلا دی

وہ گلینڈ والے جوتے ذیشان لے گیا

تمہارے دیے ھوے ایئر فون اور چشمے ایک دن جلد بازی میں ایئر پورٹ پہ بھول گیا

بہت ڈھونڈھے پر نہیں ملے

پرفیوم ختم ہو گیا ہے گھڑی کھوئی نہیں ہے بس بند ہو گئی تھی اس لئے اتار کے رکھ دی ہے بس بتا رہا ہوں تم کو

ویسے کچھ حساب بھی دینا تھا تم کو جو تمہاری اور میری تصویر والا کافی مگ جو تم نے مجھے دیا تھا

اس کا ہینڈل مجھ سے ٹوٹ گیا ہے

وہ بلیو والی شرٹ پچھلے دو ہفتوں سے مل نہیں رہی پتہ نہیں کہی کھو گئی ہے

یہ سب پڑا ہے اور میں ویسے یہ که رہا تھا کے خرید لینا یہ سب کچھ

کیوں کے لوٹانے کا من نہیں ہے میرا نہیں نہیں مذاق کر رہا ہوں

سمبھال رکھا ہے میں نے سب

جب آؤ گی تو لے جانا

جن میں تم بلا کی حسیں لگی جیسے کے وہ ریڈ والا ٹاپ

اور وہ بلیک والی ڈریس اور وہ بےبی پنک کلر کا کروپ ٹاپ

اور وہ گرین والا جمپ سوٹ

جب آؤ گی تو لے جانا جب آؤ گی تو لے جانا

Leave a Comment