ہم ملیں گے پھر کبھی اُن بارشوں کے موسم میں
جب آسمانی رقص میں طائر لہو برسائیں گے
ہم ملیں گے پھر کہیں اُن وادیوں کے دشت میں
جہاں ویران زندانوں کے مرے باسی لوٹ آئیں گے
ہم ملیں گے پھر کہیں اُطلسی زمینوں پر شب کے
س پچھلے پہر کہ جب سانسوں کا ہر پھیرا دمِ آخر کہلائے گا
اب اس واقعاتی تسلسل کو تم ذرا جوڑو تو سہی
حرف حرف بتلائے گا اب کے ملن ناممکن ہے
آؤ یہ ہاتھ تھامو اور سانس سانس دہراؤ کہ
ب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں